اروی بنت احمد
| ||||
---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | سنہ 1048ء | |||
وفات | سنہ 1138ء (89–90 سال) | |||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | سیاست دان ، شاہی حکمران | |||
درستی - ترمیم ![]() |



اروی بنت احمد صلیحی، یمن کی صَلیحی حکومت کی ملکہ، جو اسلام کی سب سے پہلی ملکہ مانی جاتی ہیں اور انھیں "السیدۃ الحُرّۃ" (آزاد خاتون) کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کا یہی لقب مشہور ہو گیا ہے۔[1]
پیدائش
[ترمیم]
یہ ملکہ شہرِ جبلة میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ رداح بنت الفارع بن موسیٰ الصلیحی تھیں، جو المکرم احمد بن علی الصلیحی (یمن کے بادشاہ) کی بیوی تھیں۔ ان کے والد احمد الصلیحی کے انتقال کے بعد ان کی پرورش اسماء بنت شِہاب کے زیرِ سایہ ہوئی، جو علی بن محمد الصلیحی (بانیِ دولتِ صَلیحیہ) کی زوجہ تھیں۔ بعد میں ان کی والدہ نے عامر بن سلیمان الزواحی سے نکاح کر لیا۔[2]
ان کا نکاح
[ترمیم]ان کا نکاح المکرم احمد بن علی الصلیحی سے سنہ 458 ہجری میں ہوا، اُس وقت ان کے سسر حیات تھے۔ احمد بن علی نے اپنے والد کے بعد حکومت سنبھالی (459 سے 481 ہجری تک)۔ ان کے بطن سے چار بچے پیدا ہوئے: علی، محمد، فاطمہ اور اُمِ ہَمدان۔
علی اور محمد دونوں بچپن ہی میں سنہ 467 ہجری میں وفات پا گئے۔ اُمِ ہَمدان کا نکاح احمد بن سلیمان بن عامر الزواحی سے ہوا اور ان سے ایک بیٹا عبد المستعلی پیدا ہوا۔ ام ہمدان اپنی ماں سے پہلے سنہ 516 ہجری میں وفات پا گئیں۔ فاطمہ کا نکاح شمس المعالی بن الراعی بن سبأ سے ہوا اور وہ اپنی والدہ کے دو سال بعد، سنہ 534 ہجری میں وفات پا گئیں۔[3],[4]
ان کی حکمرانی
[ترمیم]المکرم احمد بن علی الصلیحی نے سلطنت کے تمام امور اپنی بیوی، ملکہ أروى کے سپرد کر دیے۔ صنعاء چھوڑنے کے بعد ان کا پہلا اقدام یہ تھا کہ انھوں نے جبلہ کے قلعے میں واقع ایک محل کو اپنا دار الحکومت بنایا، جو ان کے شوہر نے تعمیر کروایا تھا اور سلطنت کے خزانے بھی وہیں منتقل کر دیے۔ ملکہ أروى نے نہایت دانشمندی سے مملکت کا انتظام سنبھالا اور یمن کی قبائل پر اپنا اقتدار قائم کیا، یہاں تک کہ سب لوگ ان کی فرماں برداری پر آمادہ ہو گئے۔ فاطمی خلیفہ المستنصر باللہ کی جانب سے یمن کو جو احکامات یا خطوط بھیجے جاتے، وہ انھی کے نام پر صادر ہوتے تھے۔[5]
جب ان کے شوہر المکرم سنہ 481 ہجری میں فوت ہوئے، تو صَلیحی اور زواحی خاندانوں کے درمیان اقتدار کے لیے اختلاف پیدا ہوا۔ المکرم کی وصیت تھی کہ دعوتِ اسماعیلیہ کے امور امیر منصور سبأ بن احمد بن المظفر الصلیحی کے سپرد کیے جائیں، جس نے ملکہ أروى سے شادی کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ لیکن ملکہ نے اس انتخاب کو قبول نہ کیا۔ سبأ نے فاطمی خلیفہ المستنصر باللہ سے رجوع کیا، جس نے حکم دیا کہ أروى سبأ سے نکاح کر لیں۔ یہ نکاح صرف رسمی حیثیت رکھتا تھا، کیونکہ اقتدار بدستور ملکہ أروى کے ہاتھ میں رہا۔ تمام وزرا ان کی خدمت میں حاضر ہوتے، عرضداشتیں ان کے پاس پیش کی جاتیں اور یمن کے منبروں پر ان کے لیے دعا کی جاتی، پہلے فاطمی خلیفہ کے لیے، پھر سبأ کے لیے اور پھر ملکہ السیدہ الحرة أروى کے لیے۔[6]

سنہ 492 ہجری میں سبأ کی وفات کے بعد انھوں نے مکمل طور پر خود حکومت سنبھال لی اور امورِ سلطنت کی تدبیر کے لیے اپنے خاص معتمدین پر انحصار کیا، جن میں مفضل بن ابی البرکات، زریع بن ابی الفضل اور علی بن ابراہیم بن نجيب الدولہ شامل تھے۔ اس کے بعد وہ چالیس برس تک برسرِ اقتدار رہیں اور اس دوران یمن کی مختلف چھوٹی چھوٹی امارات پر اپنی سیادت و برتری قائم رکھی، بغیر اس کے کہ انھیں بزورِ طاقت زیر کیا ہو۔[7]
ابن نجيب الدولہ سے اختلاف
[ترمیم]ابن نجيب الدولہ سنہ 513ھ میں فاطمی خلیفہ کی طرف سے یمن آیا اور باغی علاقوں کو قابو میں لایا، جس سے ملکہ أروى کی حکومت مضبوط ہوئی۔ لیکن 519ھ میں اس نے ملکہ کی توہین شروع کی، انھیں ضعیف العقل قرار دے کر اقتدار چھیننے کی کوشش کی۔ یمن کے امرا نے اس کا ساتھ نہ دیا اور اسے خلافت مخالف سازش کا مجرم ٹھہرایا۔ فاطمی خلیفہ نے اسے گرفتار کر کے مصر بھیجنے کا حکم دیا، مگر وہ راستے میں سمندر میں ڈوب گیا۔ بعد ازاں، ملکہ أروى نے دعوتِ فاطمیہ کی ذمہ داری سبأ بن ابی السعود کو سونپی۔ انھوں نے علمی و عمرانی ترقی کو بھی فروغ دیا اور ان کا اثر عمان و ہندوستان تک پھیل گیا۔
وفات
[ترمیم]ملکہ أروى نے طویل عمر پائی۔ وفات کے بعد انھیں مسجدِ ذی جبلة میں دفن کیا گیا، جو انھوں نے خود تعمیر کروائی تھی اور ان کا مزار آج بھی زیارت گاہ ہے۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی صَلیحی سلطنت کمزور پڑ گئی اور رفتہ رفتہ آلِ زُریع کے امرا کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ بالآخر صَلیحی حکومت کا مکمل خاتمہ اُس وقت ہوا جب توران شاہ بن ایوب نے 569ھ میں یمن پر قبضہ کر لیا۔[8]
ان کی صفات
[ترمیم]ملکہ أروى کا رنگ سفید تھا جس میں ہلکی سرخی نمایاں تھی، قد لمبا اور جسم قدرے بھاری تھا۔ ان کی آواز بلند اور رعب دار تھی۔[9]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑
- ↑ Shahla Haeri (2020)، The Unforgettable Queens of Islam، Cambridge University Press، ص 89–105، ISBN:978-1-107-55489-4
- ↑ Abbas Hamdani (1974)۔ "The dāʿī Ḥātim ibn Ibrāhīm al-Ḥāmidī (d. 596 H./ 1199 A.D.) and His Book "Tuḥfat al-qulūb""۔ Oriens۔ 23/24: 258–300۔ DOI:10.2307/1580105۔ JSTOR:1580105
- ↑ Sulṭān Nājī (1973)۔ Bibliyūjrāfiyā Mukhtārah Wa-tafsīrīyah ʻan Al-Yaman۔ Kuwait University, Libraries Department۔ ص 184
- ↑ Samer Traboulsi (2003)۔ "The Queen was Actually a Man: Arwā Bint Aḥmad and the Politics of Religion"۔ Arabica۔ ج 50 شمارہ 1: 96–108۔ DOI:10.1163/157005803321112164۔ JSTOR:4057749
- ↑ Delia Cortese؛ Simonetta Calderini (2006)۔ Women and the Fatimids in the World of Islam۔ Edinburgh: Edinburgh University Press۔ ص 128–40۔ ISBN:0-7486-1732-9۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-04-30
- ↑ Fatima Mernissi (2003)، The forgotten queens of Islam، ترجمہ از Mary Jo Lakeland، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، ISBN:978-0-19-579868-5
- ↑ "About the name of the University"۔ جامعة الملكة أروى[مردہ ربط]
- ↑ الخزرجي العسجد المسبوك ص 61
- 1048ء کی پیدائشیں
- 1138ء کی وفیات
- یمنی خواتین
- 1040ء کی دہائی کی پیدائشیں
- یمن کے فرماں روا
- خاتون شاہی اقتدار
- عرب کی ملکائیں
- حکمراں ملکائیں
- مستعلی
- بارہویں صدی کی عرب شخصیات
- گیارہویں صدی کی عرب شخصیات
- یمن کے حکمران
- بارہویں صدی کی خواتین حکمران
- گیارہویں صدی کی خواتین حکمران
- یمنی اسماعیلی
- 569ھ کی وفیات
- خواتین
- 1050ء کی پیدائشیں
- یمن کی اسلامی تاریخ